احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

41: 41- بَابُ هَلْ يُصَلِّي الإِمَامُ بِمَنْ حَضَرَ وَهَلْ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي الْمَطَرِ:
باب: جو لوگ (بارش یا اور کسی آفت میں) مسجد میں آ جائیں تو کیا امام ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور برسات میں جمعہ کے دن خطبہ پڑھے یا نہیں؟
صحيح بخاري حدیث نمبر: 668
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال: حدثنا حماد بن زيد، قال: حدثنا عبد الحميد صاحب الزيادي، قال: سمعت عبد الله بن الحارث، قال:"خطبنا ابن عباس في يوم ذي ردغ، فامر المؤذن لما بلغ حي على الصلاة، قال: قل الصلاة في الرحال، فنظر بعضهم إلى بعض فكانهم انكروا، فقال: كانكم انكرتم هذا، إن هذا فعله من هو خير مني يعني النبي صلى الله عليه وسلم، إنها عزمة وإني كرهت ان احرجكم"، وعن حماد، عن عاصم، عن عبد الله بن الحارث، عن ابن عباس نحوه، غير انه قال: كرهت ان اؤثمكم، فتجيئون تدوسون الطين إلى ركبكم.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب بصریٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالحمید صاحب الزیادی نے بیان کیا کہ کہا میں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا۔ پھر مؤذن کو حکم دیا اور جب وہ «حى على الصلاة‏» پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو «الصلاة في الرحال» کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔ لوگ ایک دوسرے کو (حیرت کی وجہ سے) دیکھنے لگے۔ جیسے اس کو انہوں نے ناجائز سمجھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بیشک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ «حى على الصلاة‏» کہہ کر تمہیں باہر نکالوں (اور تکلیف میں مبتلا کروں) اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ البتہ انہوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو۔

Share this: