احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ: {أَلاَ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلاَ حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ}:
باب: آیت کی تفسیر ”خبردار ہو، وہ لوگ جو اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں، تاکہ اپنی باتیں اللہ سے چھپا سکیں وہ غلطی پر ہیں، اللہ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے۔ خبردار رہو! وہ لوگ جس وقت چھپنے کے لیے اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں (اس وقت بھی) وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ (ان کے) دلوں کے اندر (کی باتوں) سے خوب خبردار ہے“۔
وقال غيره: {وحاق} نزل، يحيق ينزل. يئوس فعول من يئست. وقال مجاهد: {تبتئس} تحزن. {يثنون صدورهم} شك وامتراء في الحق. {ليستخفوا منه} من الله إن استطاعوا.
‏‏‏‏ عکرمہ کے سوا اور لوگوں نے کہا کہ «حاق» کا معنی اتر پڑا اسی سے ہے «يحيق ينزل» اترتا ہے۔ «انه ليوس كفور» میں «يوس» کا معنی ناامید ہونا۔ جو بروزن «فعول» ہے۔ یہ «يئست» سے نکلا ہے اور مجاہد نے کہا «لا تبتئس» کا معنی غم نہ کھا «يثنون صدورهم» کا مطلب یہ ہے کہ حق بات میں شک و شبہ کرتے ہیں۔ «ليستخفوا منه» یعنی اگر ہو سکے تو اللہ سے چھپا لیں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4681
حدثنا الحسن بن محمد بن صباح، حدثنا حجاج، قال: قال ابن جريج: اخبرني محمد بن عباد بن جعفر، انه سمع ابن عباس يقرا: 0 الا إنهم تثنوني صدورهم 0، قال:"سالته عنها"، فقال:"اناس كانوا يستحيون ان يتخلوا، فيفضوا إلى السماء وان يجامعوا نساءهم، فيفضوا إلى السماء فنزل ذلك فيهم".
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو محمد بن عباد بن جعفر نے خبر دی اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آپ آیت کی قرآت اس طرح کرتے تھے «ألا إنهم تثنوني صدورهم‏» میں نے ان سے آیت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اس میں حیاء کرتے تھے کہ کھلی ہوئی جگہ میں حاجت کے لیے بیٹھنے میں، آسمان کی طرف ستر کھولنے میں، اس طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف کھولنے میں پروردگار سے شرماتے۔

Share this: