احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

15: 15- بَابُ إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِوَكِيلِهِ ضَعْهُ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ. وَقَالَ الْوَكِيلُ قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ:
باب: اگر کسی نے اپنے وکیل سے کہا کہ جہاں مناسب جانو اسے خرچ کرو، اور وکیل نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2318
حدثني يحيى بن يحيى، قال: قرات على مالك، عن إسحاق بن عبد الله، انه سمع انس بن مالك رضي الله عنه، يقول:"كان ابو طلحة اكثر الانصار بالمدينة مالا، وكان احب امواله إليه بيرحاء، وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها، ويشرب من ماء فيها طيب، فلما نزلت: لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، قام ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن الله تعالى يقول في كتابه: لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، وإن احب اموالي إلي بيرحاء، وإنها صدقة لله، ارجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت، فقال: بخ ذلك مال رائح، ذلك مال رائح، قد سمعت ما قلت فيها، وارى ان تجعلها في الاقربين، قال: افعل يا رسول الله، فقسمها ابو طلحة في اقاربه وبني عمه"، تابعه إسماعيل، عن مالك، وقال روح، عن مالك: رابح.
مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے قرآت کی بواسطہ اسحاق بن عبداللہ کے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار کے سب سے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ بیرحاء (ایک باغ) ان کا سب سے زیادہ محبوب مال تھا۔ جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لے جاتے اور اس کا نہایت میٹھا عمدہ پانی پیتے تھے۔ پھر جب قرآن کی آیت «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» اتری تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کر سکتے جب تک نہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں وہ چیز جو تمہیں زیادہ پسند ہو تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» اور مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند میرا یہی باغ بیرحاء ہے۔ یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اس کی نیکی اور ذخیرہ ثواب کی امید میں صرف اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں۔ پس آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، واہ واہ! یہ بڑا ہی نفع والا مال ہے۔ بہت ہی مفید ہے۔ اس کے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا۔ اب میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تو اپنے رشتہ داروں ہی میں تقسیم کر دے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ یہ کنواں انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا۔ اس روایت کی متابعت اسماعیل نے مالک سے کی ہے۔ اور روح نے مالک سے (لفظ «رائح‏.‏» کے بجائے) «رابح‏.‏» نقل کیا ہے۔

Share this: