احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

44: 44- بَابُ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ:
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
ذكره انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
‏‏‏‏ انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4251
حدثني عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء رضي الله عنه، قال: لما اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة فابى اهل مكة ان يدعوه يدخل مكة حتى قاضاهم على ان يقيم بها ثلاثة ايام، فلما كتبوا الكتاب، كتبوا هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله، قالوا: لا نقر لك بهذا، لو نعلم انك رسول الله ما منعناك شيئا، ولكن انت محمد بن عبد الله، فقال:"انا رسول الله، وانا محمد بن عبد الله"، ثم قال لعلي بن ابي طالب رضي الله عنه:"امح رسول الله"، قال علي: لا، والله لا امحوك ابدا، فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الكتاب، وليس يحسن يكتب، فكتب هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله لا يدخل مكة السلاح إلا السيف في القراب، وان لا يخرج من اهلها باحد إن اراد ان يتبعه، وان لا يمنع من اصحابه احدا إن اراد ان يقيم بها، فلما دخلها ومضى الاجل، اتوا عليا فقالوا: قل لصاحبك اخرج عنا فقد مضى الاجل، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فتبعته ابنة حمزة تنادي: يا عم، يا عم، فتناولها علي، فاخذ بيدها، وقال لفاطمة عليها السلام: دونك ابنة عمك حملتها، فاختصم فيها علي، وزيد، وجعفر، قال علي: انا اخذتها وهي بنت عمي، وقال جعفر: ابنة عمي وخالتها تحتي، وقال زيد: ابنة اخي، فقضى بها النبي صلى الله عليه وسلم لخالتها، وقال:"الخالة بمنزلة الام"، وقال لعلي:"انت مني وانا منك"، وقال لجعفر:"اشبهت خلقي وخلقي"، وقال لزيد:"انت اخونا ومولانا"، وقال علي: الا تتزوج بنت حمزة ؟، قال:"إنها ابنة اخي من الرضاعة".
مجھ سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے اسرائیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کا احرام باندھا۔ مکہ والے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے مانع آئے۔ آخر معاہدہ اس پر ہوا کہ (آئندہ سال) مکہ میں تین دن آپ قیام کر سکتے ہیں۔ معاہدہ یوں لکھا جانے لگا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ کفار قریش کہنے لگے کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو روکتے ہی کیوں ‘ آپ تو بس محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ (رسول اللہ کا لفظ مٹا دو) انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! میں یہ لفظ کبھی نہیں مٹا سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریر اپنے ہاتھ میں لے لی۔ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے اس کے الفاظ اس طرح کر دیئے یہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے کیا کہ وہ ہتھیار لے کر مکہ میں نہیں آئیں گے۔ البتہ ایسی تلوار جو نیام میں ہو ساتھ لا سکتے ہیں اور یہ اگر مکہ والوں میں سے کوئی ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو اسے اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے ساتھیوں میں کوئی مکہ میں رہنا چاہے گا اسے نہ روکیں گے۔ پھر جب (آئندہ سال) آپ اس معاہدہ کے مطابق مکہ میں داخل ہوئے (اور تین دن کی) مدت پوری ہو گئی تو مکہ والے علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں ‘ کیونکہ مدت پوری ہو گئی ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے تو آپ کے پیچھے حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی چچا چچا کہتی ہوئی آئیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں لے لیا اور ہاتھ پکڑ کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس لائے اور کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو میں اسے لیتا آیا ہوں۔ علی ‘ زید ‘ جعفر رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہوا۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اور جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اس کی خالہ میرے نکاح میں ہیں۔ زید رضی اللہ عنہ نے کہا یہ میرے بھائی کی لڑکی ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خالہ کے حق میں فیصلہ فرمایا (جو جعفر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں) اور فرمایا خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے اور علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت و شکل اور عادت و اخلاق دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو اور زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو۔ علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو آپ اپنے نکاح میں لے لیں لیکن آپ نے فرمایا کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔

Share this: