احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

33: 33- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ}:
باب: اللہ پاک کا سورۃ البقرہ میں یہ فرمانا کہ حج کے مہینے مقرر ہیں جو کوئی ان میں حج کی ٹھان لے تو شہوت کی باتیں نہ کرے نہ گناہ اور جھگڑے کے قریب جائے کیونکہ حج میں خاص طور پر یہ گناہ اور جھگڑے بہت ہی برے ہیں۔
{يسالونك عن الاهلة قل هي مواقيت للناس والحج}
‏‏‏‏ اے رسول! تجھ سے لوگ چاند کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئیے کہ چاند سے لوگوں کے کاموں کے اور حج کے اوقات معلوم ہوتے ہیں۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حج کے مہینے شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔
وقال ابن عمر رضي الله عنهما: اشهر الحج شوال , وذو القعدة , وعشر من ذي الحجة , وقال ابن عباس رضي الله عنهما: من السنة ان لا يحرم بالحج إلا في اشهر الحج , وكره عثمان رضي الله عنه ان يحرم من خراسان او كرمان.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سنت یہ ہے کہ حج کا احرام صرف حج کے مہینوں ہی میں باندھیں اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی خراسان یا کرمان سے احرام باندھ کر چلے تو یہ مکروہ ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1560
حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثني ابو بكر الحنفي، حدثنا افلح بن حميد، سمعت القاسم بن محمد، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:"خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في اشهر الحج وليالي الحج وحرم الحج، فنزلنا بسرف، قالت: فخرج إلى اصحابه، فقال: من لم يكن منكم معه هدي فاحب ان يجعلها عمرة فليفعل، ومن كان معه الهدي فلا، قالت: فالآخذ بها والتارك لها من اصحابه، قالت: فاما رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجال من اصحابه فكانوا اهل قوة، وكان معهم الهدي فلم يقدروا على العمرة، قالت: فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال: ما يبكيك يا هنتاه ؟ , قلت: سمعت قولك لاصحابك فمنعت العمرة، قال: وما شانك، قلت: لا اصلي، قال: فلا يضيرك، إنما انت امراة من بنات آدم كتب الله عليك ما كتب عليهن، فكوني في حجتك فعسى الله ان يرزقكيها، قالت: فخرجنا في حجته حتى قدمنا منى فطهرت، ثم خرجت من منى فافضت بالبيت، قالت: ثم خرجت معه في النفر الآخر حتى نزل المحصب ونزلنا معه، فدعا عبد الرحمن بن ابي بكر، فقال: اخرج باختك من الحرم فلتهل بعمرة، ثم افرغا، ثم ائتيا ها هنا فإني انظركما حتى تاتياني، قالت: فخرجنا حتى إذا فرغت وفرغت من الطواف، ثم جئته بسحر، فقال: هل فرغتم ؟، فقلت: نعم، فآذن بالرحيل في اصحابه فارتحل الناس، فمر متوجها إلى المدينة ضير من ضار يضير ضيرا"، ويقال: ضار يضور ضورا وضر يضر ضرا.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر حنفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے مہینوں میں حج کی راتوں میں اور حج کے دنوں میں نکلے۔ پھر سرف میں جا کر اترے۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو اور وہ چاہتا ہو کہ اپنے احرام کو صرف عمرہ کا بنا لے تو اسے ایسا کر لینا چاہئے لیکن جس کے ساتھ قربانی ہے وہ ایسا نہ کرے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے اس فرمان پر عمل کیا اور بعض نے نہیں کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعض اصحاب جو استطاعت و حوصلہ والے تھے (کہ وہ احرام کے ممنوعات سے بچ سکتے تھے۔) ان کے ساتھ ہدی بھی تھی، اس لیے وہ تنہا عمرہ نہیں کر سکتے تھے (پس انہوں نے احرام نہیں کھولا) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ (اے بھولی بھالی عورت! تو) رو کیوں رہی ہے؟ میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کے اپنے صحابہ سے ارشاد کو سن لیا، اب تو میں عمرہ نہ کر سکوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا میں نماز پڑھنے کے قابل نہ رہی (یعنی حائضہ ہو گئی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ آخر تم بھی تو آدم کی بیٹیوں کی طرح ایک عورت ہو اور اللہ نے تمہارے لیے بھی وہ مقدر کیا ہے جو تمام عورتوں کے لیے کیا ہے۔ اس لیے (عمرہ چھوڑ کر) حج کرتی رہ اللہ تعالیٰ تمہیں جلد ہی عمرہ کی توفیق دیدے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بیان کیا کہ ہم حج کے لیے نکلے۔ جب ہم (عرفات سے) منیٰ پہنچے تو میں پاک ہو گئی۔ پھر منٰی سے جب میں نکلی تو بیت اللہ کا طواف الزیارۃ کیا۔ آپ نے بیان کیا کہ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب واپس ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی محصب میں آن کر اترے۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بلا کر کہا کہ اپنی بہن کو لے کر حرم سے باہر جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ پھر عمرہ سے فارغ ہو کر تم لوگ یہیں واپس آ جاؤ، میں تمہارا انتظار کرتا رہوں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق) چلے اور جب میں اور میرے بھائی طواف سے فارغ ہو لیے تو میں سحری کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ فارغ ہو لیں؟ میں نے کہا ہاں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے سفر شروع کر دینے کے لیے کہا۔ سفر شروع ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ واپس ہو رہے تھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ جو «لايضيرک» ہے وہ «ضار يضير ضيراا» سے مشتق ہے ضار يضور ضورا» بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور جس روایت میں «لايضرک» ہے وہ «ضر يضر ضرا‏» سے نکلا ہے۔

Share this: